امام علی مقصود فلاحی۔ متعلم:شعبہ صحافت و ترسیل عامہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی-حیدرآباد
شیعہ وقف بورڈ کا سابق صدر وسیم رضوی نے پھر ایک فتنہ کھڑا کردیا ہے، سپریم کورٹ میں قرآن کی چھبیس آیتوں کے تعلق سے عرضی داخل کی ہے، اور ان چھبیس آیتوں کو قرآن سے حذف کرنے کی درخواست کی ہے، وسیم رضوی کا کہنا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان چھبیس آیتوں کو اپنی طرف سے بڑھایا ہے اور پھر انہیں آیتوں کا سہارا لیتے ہوئے، لوگوں کو تلوار دکھاتے ہوئے اسلام کو پھیلایا ہے، جو کہ موجودہ دور میں آتنکواد کو بڑھاوا دیتا ہے۔
قارئین!
یہی وہ شخص ہے جس نے چند دنوں قبل ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ و پاکیزہ پر ایک فلم بنانے کی تیاری کی تھی، جس میں حضرت عائشہ کا کردار اداکارہ سونم ترپاٹھیا ادا کرنے والی تھی، جسکی مخالفت شیعہ سنی سب نے کیا تھا، یہی وہ شخص ہے جس نے رامجنم بھومی نامی ایک فلم کو پروڈیوس کیا تھا، جس میں مذہب اسلام کے احکامات کی تذلیل کی گئی تھی، جیسے نکاح اور حلالہ کے مسائل کو غلط انداز میں پیش کیا گیا تھا۔
یہی وہ شخص ہے جو مسلسل ہندو مسلم کے درمیان تشدد کا راستہ ہموار کرتا رہا، یہی وہ شخص ہے جو شیعیت کا لبادہ اوڑھ کر آرایس ایس کی غلامی کرتا رہا، یہی وہ شخص ہے جو شریعت اسلامیہ کا مذاق اڑاتا رہا، اسی شخص نے آج قرآن پر دھاوا بول دیا ہے اور اسکے خلاف عرضی داخل کردیا ہے، اسکی چھبیس آیتوں کو حذف کرنے کا اقرار کیا ہے، انہیں آیتوں کو آتنکواد کا معلم قرار دیا ہے ، خلفاء راشدین کو برا بھلا کہا ہے۔
محترم قارئین! میں حیران و ششدر ہوں کہ کیا تحریر کروں، وسیم رضوی کی جہالت پر تبصرہ کروں یا حفاظت قرآنی پر قلم اٹھاؤں، خلفاء راشدین کا دفاع کروں یا ان چھبیس آیتوں کا جواب تحریر کروں، خلفاء راشدین کے عدالت پر بحث کروں یا تبلیغ اسلامی کو قلم طراز کروں۔
کیونکہ اس نے کئی ایسی باتیں کہی ہیں جو ناقابل برداشت ہیں، جسکا جواب دینا یکے بعد دیگرے بیحد ضروری سمجھتا ہوں، اسی لیے موضوع کو زیادہ طول نہ دیتے ہوئے آج کے موضوع کو صرف حفاظت قرآنی میں قلم بند کرنے کی جسارت کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحیح لکھنے کی توفیق عطا فرمائےاور وسیم رضوی کی تردید فرمائے۔ آمین۔
قارئین ! وسیم رضوی کا یہ کہنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین نے قرآن پاک میں زیادتی کی ہے اور اپنی جانب سے اس میں کئی ساری باتوں کو داخل کردیا ہے، یہ ناقابل یقین ہے کیونکہ اللہ نے خود قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ لیا ہے اور تاقیامت اس میں کوئی تبدیل و ترمیم نہیں ہو سکتی، اور ہو بھی کیسے جبکہ یہ قرآن کا ایک معجزہ ہے، ان جیسی آیتوں کو خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں پیش کرسکتا، جسکا چیلنج خود قرآن نے بھی کیا ہے ، لہذا سورہ اسراء، آیت 88 میں اللہ تعالی نے تحدی کی ہے: “قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً”، ” آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں”۔
اس آیت میں اللہ نے صاف طور سے کہا ہے تم سب ملکر بھی اگر اس جیسا قرآن پیش کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے، اسکے علاوہ دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ تم اس جیسی ایک سورة کیا ایک ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکتے، جب اللہ نے خود اسکا اعلان کردیا کہ تم اس جیسا نہ دوسرا قرآن لاسکتے ہو نہ کوئی سورة اور نہ کوئی آیت تو یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر و عثمان نے اپنی جانب سے اس میں اس جیسی دوسری آیتوں کا اضافہ کیا ہو؟
اور اضافہ ہو بھی کیسے جبکہ اللہ نے خود اسکا ذمہ اٹھایا ہے اور اسکی حفاظت کی ذمہ داری لیا ہے جیسا کہ قرآن شاہد ہے :
انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحافظون۔
کہ ہمہی نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اسکی حفاظت کرنے والے ہیں۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ اللہ اپنے اس قرآن کی حفاظت کیسے کرے گا؟ کوئی غیبی امر ہے یا اللہ نے اسکے لئے کوئی خاص انتظام کیا ہے تو اسکا جواب بھی اللہ نے دے دیا،
اللہ نے فرمایا : وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًاۙ ۔۔۔ زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے
ہم انسان جن چیزوں کو اپنی زبان میں ’’ٹولز‘‘ Tools کہتے ہیں، اللہ ان کو اپنے لشکر کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زمین اور آسمانوں میں میرے کئی لشکر ہیں جن کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ پھر جہاں جس ٹول کی ضرورت ہوتی ہے وہاں استعمال کیا جاتا ہے۔ انسان، فرشتے، جن، ہوائیں، زلزلے، بادل، پانی، آگ، مٹی، بیماریاں، موذی جانور وغیرہ یہ سب اللہ کے ٹولز ہیں۔
اللہ کئی کام انسانوں ہی سے لیتا ہے، کئی کام ملائکہ سے لیتا ہے۔ کئی کام آفاقی و قدرتی قوتوں سے لیتا ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال اگر دیکھنا چاہیں تو فرعون کی لاش کا معاملہ دیکھ لیں۔ اللہ نے اس کو عبرت کا نشان بنانا چاہا اور کہہ دیا کہ: فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً۔،
یہ کام پانی نے کردیا۔ کہ اس کوپہلے ڈبویا، پھر اس کی لاش کو اچھال کر خشکی پر پھینک دیا۔ پھر انسانوں ہی نے اس کی لاش کو اٹھایا اور محفوظ کرلیا، جو آج تک محفوظ ہے۔
اسی طرح، جب اللہ کہتا ہے کہ ہم نے یہ قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے تو ہم دیکھتےہیں کہ یہ کام تو ہوگیا لیکن بہت کم لوگ سوچتے ہیں کہ یہ ہوا کیسے؟ اس کام کو کرتا ہوا توکوئی نظر تو نہیں آیا۔ نہ فرشتے، نہ اللہ خود، نہ کوئی مافوق الفطرت قوت۔ پھر انسانی تاریخ کا یہ سب سے انوکھا کام کیسے ہوگیا۔ اس کے لیے اللہ نے کیا انتظامات کیے؟
درصل قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ نے دس چیزوں کو محفوظ کرلیا جس کے نتیجہ میں قرآن خود بخود محفوظ ہوگیا۔ وہ دس چیزیں کیا ہیں،
۱۔ متن قرآن” قرآن نازل تو عربی زبان میں ہوا اور حضور نے جبرئیل امین سے سماعت فرمانے کے بعد اسے اپنے سینہ انور میں محفوظ بھی کیا لیکن اس کا متن جب قرطاس پر منتقل ہوا تو اس چیز کا پورا احتمال تھا کہ اس کے الفابیٹ تبدیل ہوجاتے لیکن اللہ نے آج تک اس کا متن اسی طرح رکھا ہوا ہے جیسا کہ وہ اول روز تھا۔ حضورﷺ کا یہ معمول تھا کہ جیسے ہی وحی کا عمل مکمل ہوتا تو آپ کاتبین وحی کو بلواکر تازہ نازل شدہ آیات لکھوالیتے۔ یہ عمل پورے تئیس سال تک جاری رہا ۔ پھر لوگوں نے اس کو یاد بھی کرنا شروع کیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لیے کہا جاتا ہے کہ آپ پہلے حافظ قرآن تھے۔
۲۔ معنی اور مفہوم” اگر متن محفوظ ہو ، معنی اور مفہوم محفوظ نہ ہو تو متن کی حفاظت کا کوئی فائدہ نہیں اس لیے قرآن کے الفاظ کے جو معنی نزول قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے آج دنیا بھر میں چودہ سو سال گذرنے کے بعد بھی وہی سمجھے جاتے ہیں۔ اگر نزول قرآن کے وقت ’’الصلوٰۃ‘‘ کے معنی نماز سمجھے جاتے تھے تو آج بھی ہم وہی معنی سمجھتے ہیں۔ صوم، استغفار، تذکیہ، انفاق، جہاد اور اس طرح کی سینکڑوں اصطلاحات جو کہ اللہ اپنے بندوں کو نزول قرآن کے وقت سمجھانا چاہتا تھا، آج بھی ان اصطلاحات کے بعینہ وہی معنی لیے جاتے ہیں۔
۳۔ زبان کی حفاظت” قرآن عربی میں نازل ہوا۔ اور عربی آج قرآن کی وجہ سے محفوظ ہے۔ دنیا کی تاریخ اور تمدن کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ تین چار سو سال کے اندر زبانیں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اردو کوئی بہت قدیم زبان نہیں ہے، لیکن اولین دور کی اردو اٹھا کر دیکھ لیں، سندھی یا انگریزی زبان کی قدیم کتب اٹھا کر دیکھ لیں، خال خال ہی سمجھ میں آئیں گی۔ علماء کے بقول، نزول قرآن کے وقت کی تمام کی تمام زبانیں کلیتاََ مٹ چکی ہیں اور ان میں سے کوئی ایک زبان بھی آج موجود نہیں، مگر قرآن نے عربی کو دوام بخش دیا اور آج بھی اگر کوئی قرآن کے نزول سے تین سو سال قبل کی قدیم عربی کے لٹریچر کو اٹھار کر دیکھ لے، کم و بیش وہی عربی ہے جو آج بھی عرب میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
۴۔ تعامل” کسی چیز پر، نسل در نسل عمل کرتے چلے آنے کو ’’تعامل‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کہا: صلواکما رئیتمونی۔ یعنی، جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو، اسی طرح نماز پڑھو۔ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کی نقل کی۔ پھر صحابہ کو تابعین نے دیکھا اور اسی طرح نماز پڑھی جیسی وہ پڑھتے تھے، یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج نماز اپنے تمام بنیادی اجزاء کی صورت میں ہم تک پنہچ چکی ہے۔ آج کروڑہا لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں نماز پڑھتے ہیں، ہر ایک کی نماز وہی ہے جو حضورﷺ نے سکھائی تھی۔
۵۔ شان نزول اور ماحول کی حفاظت” جس ماحول اور پس منظر میں اللہ نے اپنا کلام نازل فرمایا جو کہ تیئیس سالوں پر مشتمل ہے، اس ماحول اور شان نزول کی حفاظت کا بھی اللہ نے بندوبست فرما دیا۔ ہم اکثر آیات کا شان نزول جانتے ہیں اور سورتوں کے بارے میں بھی جانتے ہیں کہ کب، کہاں اور کس پس منظر میں نازل ہوئیں۔ کیا مسئلہ درپیش تھا۔ یہ تفصیل حدیث اور سیرت کی کتب میں محفوظ کرلی گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں جہاں جہاں آیت سجدہ ہے، حضور کا سجدہ کرنا ثابت ہے اور یہ حدیث کے ذریعہ ہی ہمیں معلوم پڑا کہ حضورﷺ نے اس موقعہ پر سجدہ کیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت جو ماحول تھا اس کو بھی اللہ نے سیرت رسول اور حدیث کی کتب کے ذریعہ محفوظ فرمادیا۔
۶۔ سیرت النبی” حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا اس طرح محفوظ ہونا کہ دوران مطالعہ قاری اپنے آپ کو اس ماحول کے اندر محسوس کرے، دراصل قرآن ہی حفاظت کی ایک کڑی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو مختلف سیرت نگاروں نے اس انداز سے لکھا اور بیان کیا ہے کہ لگتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سامنے ہی تشریف فرما ہیں اور قاری خود ان کی محفل میں موجود ہے۔
۷۔ علم الانساب” اگر آپ سے کوئی کہے کہ آپ اپنے نانا کا نام بتائیں۔ تو آپ بڑی آسانی کے ساتھ بتادیں گے۔ لیکن اگر کوئی آپ سے کہے کہ آپ اپنے نانا کے نانا کا نام بتائیں، تو شاید آپ میں سے دس فیصد لوگ بھی نہ بتاسکیں۔ اور اگر آپ سے یہ کہا جائے کہ آپ اپنے نانا کے نانا کے نانا کا نام بتائیں، تو شاید آپ میں سے کوئی بھی نہ بتاسکے۔ لیکن عرب لوگوں میں یہ تفصیلات باقاعدہ محفوظ رکھی جاتی تھیں۔ علم الانساب اس فن کو کہتے ہیں جس کے تحت عرب لوگ اپنے اباؤ اجداد کے شجرے محفوظ رکھتے تھے۔ اس پر درجنوں کتابیں آج بھی محفوظ ہیں۔ قبائل اپنے نسب کو جانتے تھے۔ کون کس کا بیٹا تھا، کس کا پوتا تھا، کس کا دادا تھا، اس کے کتنے بھائی تھے، اس نے شادی کہاں سے کی تھی، پھر اس کو کیا اور کتنی اولادیں ہوئیں۔ لیکن یہاں جو بات سب سے حیرت انگیز ہے وہ یہ کہ حضورﷺ کے بارے میں جو معلومات اس علم الانساب کے تحت جمع ہوئیں، وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئیں۔لگتا یہ ہے کہ اس فن کا سارا محور اور مرکز آپﷺ کی ذات مبارکہ ہیں اور اللہ نے یہ علم خاص طور پر عرب کو دیا تاکہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے بارے میں معلومات محفوظ کرلیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کام کرنے والوں نے اسی علم الانساب کی مدد سے آپ کے شجرہ نسب و اجداد کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں۔یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ سے لے کر آپ کے جد امجد عدنان تک اہم اور بنیادی معلومات محفوظ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دادیاں کون تھیں، نانیاں کون تھیں، پھوپھیاں کون تھیں، یہ سب معلومات علم الانساب میں ملیں گی۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپﷺ کے اجداد، آپ کی دادیاں، آپ کی نانیاں، آپ کے نانا اورآپ کی پھوپھیاں اور آگے آپ کے چچا اورآگے پھر ان کی تفصیلات پچیس پچیس اور تیس تیس نسلوں تک محفوظ ہے۔ اس طرح کی تفصیلات حضرت ابوبکرصدیق رض حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم اجمعین کی محفوظ نہیں۔ ابوجہل اور ابولہب کی محفوظ نہیں۔ خالد بن ولید کی محفوظ نہیں۔ حالانکہ یہ اسلام سے پہلے بڑے بڑے لوگ تھے۔ کسی کی معلومات محفوظ نہیں رہی، سوائے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے۔
۸۔ سنت وا حادیث” سیرت کے ساتھ ساتھ، اللہ نے قرآن ہی کی حفاظت کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث کو بھی محفوظ فرمالیا۔ جو لوگ حدیث کو قرآن سے الگ کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ حدیث دراصل قرآن ہی کی تشریح ہے۔ اللہ نے اپنا دین اجمالی طور پر قرآن میں نازل کیا ہے لیکن اس کی تفصیل سنت اور احادیث کی صورت میں ہم تک پنہچانے کا بندوبست کیا ہے۔ آپ اندازہ لگا لیں کہ اگر تمام کا تمام دین قرآن میں نازل کیا جاتا تو کتنی ضخیم کتب تیار ہوجاتیں۔ آپ صرف نماز ہی کو لے لیں اگر اس کی ایک ایک چیز اور تفصیل کو لکھیں تو قرآن جیسی کئی کتب تیار ہوجاتیں، پھر انہیں کون پڑھتا۔ اس لیے اللہ نے اپنے احکام کو قرآن میں نازل کرکے باقی تفصیل اور اس پر عملدرآمد کی زندہ مثال کے طور پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو جاری کردیا۔
۹۔ سیرت صحابہ رضہ کی حفاظت” دنیا میں بہت سے نامور لوگ آئے۔ جن میں بادشاہ بھی تھے، فلاسفر اور بڑے بڑے فاتح اور جرنیل بھی تھے۔ اگر تاریخ کی کتب اٹھا کر دیکھی جائیں تو آپ کو ان شخصیات کے ساتھ دو چار لوگوں ہی کے نام ملیں گے۔ اگر مثال کے طور پر میں آپ سے کہوں کہ مجھے سقراط اور سکندراعظم کے پچاس پچاس دوستوں یا ساتھیوں کے نام بتادیں تو کوئی بھی نہ بتا سکے گے۔ واضح رہے کہ میں صرف نام پوچھ رہا ہوں۔ باقی تفصیل نہیں۔ لیکن صدقے جاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر، آج کم و بیش پندرہ ہزار صحابہ کے نہ صرف نام بلکہ ان کی زندگیوں کی بہت سی تفصیلات بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ جو صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے قریب تھے، ان کی تفصیلات اتنی ہی زیادہ ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ جس قرآن کو اللہ نے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری لی ہے وہ نامکمل ہوتا اگر اس کے ساتھ ساتھ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور ان لوگوں کے احوال بھی محفوظ نہ کرلیے جاتے جو کہ اس کے براہ راست مخاطب تھے۔ لہٰذا آج ہمارے درمیان شمع رسالت کے ہزاروں پروانوں کے احوال اپنی درست صحت اور سند کے ساتھ محفوظ ہیں۔
۱۰۔ علم الرجال” قرآن ہی کو محفوظ رکھنے کے لیے علم الرجال جیسا حیرت انگیز علم وجود میں آیا۔ صحابہ کرام کے حالات ہم تک کیسے پہنچے، احادیث اور سنت نبوی ﷺ ہم تک کن ذرائع سے ہوتی ہوئی آئی۔ اس مقصد کے لیے چھ لاکھ افراد کا ڈیٹا جمع کیا گیا جسے علم الرجال کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی قدیم اور جدید علوم اور تاریخ انسانی کا یہ واحد حیرت انگیز کارنامہ ہے جو مسلمان امت کا سرمایہ افتخار ہے۔ یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ تدوینِ احادیث نبویﷺ کے کام کے دوران کون سی شخصیات نے اپنی خدمات پیش کیں۔ ان کا علم و فضل کس درجہ کا تھا۔ وہ کس کردار کے لوگ تھے۔
بہر حال جب اللہ نے اس قرآن کو محفوظ بنادیا ہے اور تا قیامت اسکی حفاظت کرتا رہے گا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں تبدیل و ترمیم کیا جائے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خلفاء راشدین پر انگلی اٹھائی جائے؟
اور یہ بھی کیسے ہو سکتا ہے کہ وسیم رضوی کی بات مان لی جائے اور اسکی خواہش کے مطابق بذریعہ سپریم کورٹ قرآن کی چھبیس آیتوں کو حذف کردیا جائے؟